إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ
اللہ (کا کلام جو انسانوں ککو ان کی سمجھ کے مطابق مخاطب کرنا چاہتا ہے) اس بات سے نہیں جھجکتا کہ کسی (حقیقت کے سمجھانے کے لیے کسی حقیر سے حقیر کی) مثال سے کام لے۔ مثلاً مچھر کی، یا اس سے بھی زیادہ کسی حقیر چیز کی پس جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ (مثالیں سن کر ان کی دانائی میں غور کرتے ہیں اور) جان لیتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہے ان کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ لیکن جن لوگوں نے انکار حق کی راہ اختیار کی ہے تو وہ (جہل اور کج فہمی سے حقیقت نہیں پا سکتے۔ وہ) کہتے ہیں بھلا ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ بس کتنے ہی انسان ہیں جن کے حصے میں اس سے گمراہی آئے گی اور کتنے ہی ہیں جن پر اس (کی سمجھ بوجھ سے) راہ (سعادت) کھل جائے گی۔ اور (خدا کا قانون یہ ہے کہ) وہ گمراہ نہیں کرتا مگر انہی لوگوں کو جو (ہدایت کی تمام حدیں توڑ کر) فاسق ہوگئے ہیں
1-جب اللہ تعالیٰ نے دلائل قاطعہ سے قرآن کا معجزہ ہونا ثابت کردیا تو کفار نے ایک دوسرے طریقے سے معارضہ کردیا اور وہ یہ کہ اگر یہ کلام الٰہی ہوتا تو اتنی عظیم ذات کے نازل کردہ کلام میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں نہ ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات کی توضیح اور کسی حکمت بالغہ کے پیش نظر تمثیلات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لئے اس میں حیا وحجاب بھی نہیں۔ فَوْقَهَا جو مچھر کے اوپر ہو، یعنی پر یا بازو، مراد اس مچھر سے بھی حقیر تر چیز۔ یا فَوْقُ کے معنی، اس سے بڑھ کر بھی ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں معنی (مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز) کے ہوں گے۔ لفظ فَوْقَهَا میں دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔ 2- اللہ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور اہل کفر کے کفر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ سب اللہ کے قانون قدرت ومشیت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ جسے قرآن نے ﴿نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى﴾ [النساء: 115]. ”جس طرف کوئی پھرتا ہے، ہم اسی طرف اس کو پھیر دیتے ہیں“ اور حدیث میں: [ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِّمَا خُلِقَ لَهُ ] (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ اللیل) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فسق، اطاعت الٰہی سے خروج کو کہتے ہیں، جس کا ارتکاب عارضی اور وقتی طور پر ایک مومن سے بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس آیت میں فسق سے مراد اطاعت سے کلی خروج یعنی کفر ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے کہ اس میں مومن کے مقابلے میں کافروں والی صفات کا تذکرہ ہے۔