وَإِن تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِّن قَبْلِكُمْ ۖ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
اگر تم لوگ تکذیب کرو گے تو تم سے پہلے بھی مختلف قومیں (اپنے پیغمبروں کی) تکذیب کرچکی ہیں اور رسول پر تو صاف صاف پہنچادینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے
1- یہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا قول بھی ہوسکتا ہے، جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ یا اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس میں اہل مکہ سے خطاب ہے اور اس میں نبی (ﷺ) کو تسلی دی جارہی ہے کہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں، تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پیغمبروں کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے۔ پہلی امتیں بھی رسولوں کو جھٹلاتی اور اس کا نتیجہ بھی وہ ہلاکت وتباہی کی صورت میں بھگتتی رہی ہیں۔ 2- اس لیے آپ بھی تبلیغ کا کام کرتے رہیے۔ اس سے کوئی راہ یاب ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کے ذمے دار آپ نہیں ہیں، نہ آپ سے اس کی بابت پوچھا ہی جائے گا، کیونکہ ہدایت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو اپنی سنت کے مطابق، جس میں ہدایت کی طلب صادق دیکھتا ہے، اس کو ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ دوسروں کو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔