سورة العنكبوت - آیت 17

إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تم اللہ کوچھوڑ کر محض بتوں کی پرستش کررہے ہو اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو اور یہ واقعہ ہے کہ خدا کوچھوڑ کر تم جن کی پرستش کررہے ہو وہ تمہیں روزی دینے کاذرا بھی اختیار نہیں رکھتے سو تم اللہ ہی سے رزق طلب کرو، اسی کی بندگی کرو اور اسی کاشکرادا کرو (تم سب کواسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- أَوْثَانٌ وَثَنٌ کی جمع ہے۔ جس طرح أَصْنَامٌ، صَنَمٌ کی جمع ہے۔ دونوں کے معنی بت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں صنم ، سونے، چاندی، پیتل اور پتھر کی مورت کو اور وثن مورت کو بھی اور چونے کے پتھر وغیرہ کے بنے ہوئے آستانوں کو بھی کہتے ہیں۔ ﴿تَخْلُقُونَ إِفْكًا کے معنی ہیں تُكَذِّبُونَ كَذِبًا ، جیسا کہ متن کے ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرے معنی ہیں ’’تَعْمَلُونَهَا وَتَنْحِتُونَهَا لِلإِفْكِ‘‘، جھوٹے مقصد کے لیے انہیں بناتے اور گھڑتے ہو۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر تم جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، وہ تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع۔ اپنے دل سے ہی تم نے انہیں گھڑ لیا ہے کوئی دلیل تو ان کی صداقت کی تمہارے پاس نہیں ہے۔ یا یہ بت تو وہ ہیں جنہیں تم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے اور گھڑتے ہو اور جب ان کی ایک خاص شکل وصورت بن جاتی ہے تو تم سمجھتے ہو کہ اب ان میں خدائی اختیارات آگئے ہیں اور ان سے تم امیدیں وابستہ کرکے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا باور کر لیتے ہو۔ 2- یعنی جب یہ بت تمہاری روزی کے اسباب ووسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ زمین میں درخت اگا سکتے ہیں اور نہ سورج کی حرارت پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں وہ صلاحیتیں دے سکتے ہیں، جنہیں بروئے کار لاکر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو، تو پھر تم روزی اللہ ہی سے طلب کرو، اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو۔ 3- یعنی مرکر اور پھر دوبارہ زندہ ہوکر جب اسی کی طرف لوٹنا ہے، اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے تو پھر اس کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پر اپنی جبین نیاز کیوں جھکاتے ہو؟ اس کے بجائے دوسروں کی عبادت کیوں کرتے؟ اور دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں سمجھتے ہو؟