بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا ۖ بَلْ هُم مِّنْهَا عَمُونَ
حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کا علم گڈمڈ ہوگیا ہے بلکہ وہ آخرت کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ وہ اس سے اندھے ہیں
1- یعنی ان کا علم آخرت کے وقوع کا وقت جاننے سے عاجز ہے۔ یا ان کا علم آخرت کے بارے میں برابر ہے جیسے نبی (ﷺ) نے حضرت جبرائیل (عليہ السلام) کے استفسار پر فرمایا تھا کہ قیامت کے بارے میں مسئول عنہا (نبی اکرم ﷺ) بھی سائل (حضرت جبرائیل عليہ السلام) سے زیادہ علم نہیں رکھتے یا یہ معنی ہیں کہ ان کا علم مکمل ہوگیا، اس لیے کہ انہوں نے قیامت کے بارے میں کیے گئے وعدوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، گویہ علم اب ان کے لیے نافع نہیں ہے کیونکہ دنیا میں وہ اسے جھٹلاتے رہے تھے جیسے فرمایا: ﴿أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا لَكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ﴾ (سورة مريم: 38) 2- یعنی دنیا میں آخرت کے بارے میں شک میں ہیں بلکہ اندھے ہیں کہ اختلال عقل وبصیرت کی وجہ سے آخرت پر یقین سے محروم ہیں۔