سورة النمل - آیت 47

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ ۚ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ کہنے لگے ہم نے تو تجھے اور تیرے ساتھیوں کو منحوس پایا ہے، صالح نے کہا، تمہاری نحوست کاسبب تو اللہ کے پاس ہے بلکہ تم لوگ آزمائش میں مبتلا کیے گئے ہو

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اطَّيَّرْنَا اصل میں تَطَيَّرْنَا ہے۔ اس کی اصل طیر (اڑنا) ہے۔ عرب جب کسی کام کا یا سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھتے اور وہ کام کرگزرتے یا سفر پر روانہ ہو جاتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو اسے بدشگونی سمجھتے اور اس کام یا سفر سے رک جاتے (فتح القدیر) اسلام میں یہ بدشگونی اور نیک شگونی جائز نہیں ہے البتہ تفاؤل جائز ہے۔ 2- یعنی اہل ایمان نحوست کا باعث نہیں ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا اصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے، کیونکہ قضا وتقدیر اسی کےاختیار میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہیں جونحوست (قحط وغیرہ) پہنچی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب تمہارا کفر ہے۔ (فتح القدیر)۔ 3- یا گمراہی میں ڈھیل دے کر تمہیں آزمایا جائے۔