سورة آل عمران - آیت 2

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کوئی نہیں مگر اسی کی ایک ذات الحی (یعنی زندہ کہ اس کے لیے زوال و فنا نہیں) القیوم (کہ کائنات ہستی کی ہر چیز اس سے قائم ہے۔ وہ اپنے قیام کے لیے کسی کا محتاج نہیں)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- حَيّ اور قَيُّومٌ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں حی کا مطلب وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، اسے موت اور فنا نہیں۔ قیوم کا مطلب ساری کائنات کا قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں سے ایک مانتےتھے۔ گویا ان کو کہا جا رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (عليه السلام) بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانۂ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت عرصے بعد کا ہے تو پھر وہ اللہ، یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہو سکتے ہیں؟ اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہوتا تو انہیں مخلوق کے بجائے الوہی صفات کا حامل اور قدیم ہونا چاہیےتھا۔ نیز ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے بھی ہمکنار ہوں گے۔ اور عیسائیوں کے بقول ہمکنار ہو چکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو وہ رد نہیں ہوتی۔ ایک یہی آل عمران کی آیت، دوسری آیت الکرسی میں ﴿اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ اور تیسری سورء طٰہ میں ﴿وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ﴾ (ابن کثیر۔ تفسیر آیت الکرسی )