لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
مسلمانو۔ جب پیغمبر اسلام تم میں سے کسی کو بلائیں تو ان کے بلانے کو آپس میں ایسی (معمولی) بات نہ سمجھو، جیسے تم میں سے ایک آدمی دوسرے آدمی کو بلایا کرتا ہے، اللہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو (مجمع سے) چھپ کرکھسک جاتے ہیں۔ حکم رسول کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو، ان پر کوئی آفت آپڑے یادردناک عذاب سے دوچار ہوں (٤٦)۔
1- اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو، رسول اللہ (ﷺ) کو اس طرح مت پکارو۔ مثلاً یا محمد (ﷺ) نہیں بلکہ یا رسول اللہ، یا نبی اللہ وغیرہ کہو۔ (یہ آپ کی زندگی کے لئے تھا جب کہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کو ضرورت پیش آتی تھی کہ آپ سے مخاطب ہوں) دوسرے معنی یہ ہیں کہ رسول کی بددعا کو دوسروں کی بد دعا کی طرح مت سمجھو، اس لئے کہ آپ کی دعا تو قبول ہوتی ہے۔ اس لئے نبی کی بددعا مت لو، تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ 2- یہ منافقین کا رویہ ہوتا تھا کہ اجتماع مشاورت سے چپکے سے کھسک جاتے۔ 3- اس آفت سے مراد دلوں کی وہ کجی ہے جو انسان کو ایمان سے محروم کردیتی ہے۔ یہ نبی کریم (ﷺ) کے احکام سے سرتابی اور ان کی مخالفت کرنے کا نتیجہ ہے۔ اور ایمان سے محرومی اور کفر پر خاتمہ، جہنم کے دائمی عذاب کا باعث ہے۔ جیسا کہ آیت کے اگلے جملے میں فرمایا۔ پس نبی کریم (ﷺ) کے منہاج، طریقے اور سنت کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہیئے۔ اس لئے جو اقوال واعمال اس کےمطابق ہوں گے، وہی بارگاہ الٰہی میں مقبول اور دوسرے سب مردود ہوں گے۔ آپ (ﷺ) کا فرمان ہے [ مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ] (البخاری- كتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا على صلح جور- ومسلم، كتاب الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور- والسنن) ”جس نے ایسا کام کیا، جو ہمارے طریقے پر نہیں ہے، وہ مردود ہے“۔