سورة النور - آیت 43

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا تم نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ یہ اللہ ہے جو ابر کی چادروں کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے (٣٠) پھر انہیں آپس میں جوڑ دیتا ہے۔ پھر انہیں اس طرح کردیتا ہے کہ ایک تہ دوسری تہ پر چڑھ جاتی ہے اور سب مل جل کر ایک ہوجاتے ہیں (٣١) پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے اندر سے پانی کے قطرے نکل رہے ہیں ( اور مینہ کا سماں بندھ گیا ہے) اس طرح آسمان سے ٹھنڈک کے (٣٢) پہاڑ اتارتا ہے (یعنی برف گرتی ہے اور پہاڑوں کی طرح اس کے تودے جم جاتے ہیں) پھر جس کو چاہتا ہے اس کا اثر پہنچا دیتا ہے جس کسی سے چاہتا ہے اسے ہٹا دیتا ہے اور اس عالم میں بجلی کی چمک کایہ حال ہوتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ بس اب آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گئیں (٣٣)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس کا ایک مطلب تو یہی ہے جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے کہ آسمان میں اولوں کے پہاڑ ہیں جن سے وہ اولے برساتا ہے۔ (ابن کثیر) دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ سماء بلندی کےمعنی میں ہے اور جبال کے معنی ہیں بڑے بڑے ٹکڑے، پہاڑوں جیسے، یعنی اللہ تعالیٰ آسمانوں سے بارش ہی نہیں برساتا بلکہ بلندیوں سے جب چاہتا ہے برف کے بڑے بڑے ٹکڑے بھی نازل فرماتا ہے، (فتح القدیر) یا پہاڑ جیسے بڑے بڑے بادلوں سے اولے برساتا ہے۔ 2- یعنی وہ اولے اور بارش بطور رحمت جنہیں چاہتا ہے، پہنچاتا ہے اور جنہیں چاہتا ہے ان سے محروم رکھتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ژالہ باری (اولے) کے عذاب سے جسے چاہتا ہے دوچار کر دیتا ہے۔ جس سے ان کی فصلیں تباہ اور کھیتیاں برباد ہو جاتی ہیں اور جن پر اپنی رحمت کرنا چاہتا ہے ان کو اس سے بچا لیتا ہے۔ 3- یعنی بادلوں میں چمکنے والی بجلی، جو عام طور پر بارش کی نوید جاں فزاں ہوتی ہے اس میں اتنی شدت کی چمک ہوتی ہے کہ وہ آنکھوں کی بصارت لے جانے کے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ بھی اس کی صناعی کاایک نمونہ ہے۔