سورة النور - آیت 2

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اگر عورت اور مرد زناکریں تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو تازیانوں کی سزا دو۔ اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہو کہ (قانون الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے) ان (مجرموں) کے لیے نرمی اور مہربانی کا جذبہ تمہارا ہاتھ پکڑے۔ نیز چاہیے کہ سزا دیتے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موقع پر موجود رہے (یعنی علانیہ سزا دی جائے) (٣)۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتائی گئی تھی، وہ سورۃ النساء آیت 15 میں گزر چکی ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے، ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، پھر جب سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے جو وعدہ فرمایا تھا، اس کے مطابق بدکار مرد وعورت کی مستقل سزا مقرر کر دی گئی ہے، وہ تم مجھ سے سیکھ لو، اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے مار دینا۔ (صحيح مسلم، كتاب الحدود باب حد الزنى- والسنن) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کو عملا سزائے رجم دی اور سو کوڑے (جو چھوٹی سزا ہے) بڑی سزا میں مدغم ہوگئے اور اب شادی شدہ زانیوں کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔ عہد رسالت مآب (ﷺ) کے بعد خلفائے راشدین اور عہد صحابہ (رضی الله عنہم) میں بھی یہی سزا دی گئی اور بعد میں تمام امت کے فقہاء وعلماء بھی اسی کے قائل رہے اور آج تک قائل ہیں۔ صرف خوارج نے اس سزا کا انکار کیا۔ برصغیر میں اس وقت بھی کچھ ایسے افراد ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں۔ اس انکار کی اصل بنیاد ہی انکار حدیث پر ہے۔ کیونکہ رجم کی سزا صحیح اور نہایت قوی احادیث سے ثابت ہے۔ اور اس کے روایت کرنے والے بھی اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ علماء نے اسے متواتر روایات میں شمار کیا ہے۔ اسلیئے حدیث کی حجیت کا اور دین میں اس کے ماخذ شرعی ہونے کا قائل شخص رجم کا انکار نہیں کرسکتا۔ 2- اس کا مطلب یہ ہے کہ ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو، ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا، ایمان کے منافی نہیں، منجملہ خواص طبائع انسانی میں سے ہے۔ 3- تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں، زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے۔ بد قسمتی سے آج کل برسر عام سزا کو انسانی حقوق کے خلاف باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ سراسر جہالت، احکام الٰہی سے بغاوت اور بزعم خویش اللہ سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ بننا ہے۔ دراں حالیکہ اللہ سے زیادہ رؤف رحیم کوئی نہیں۔