سورة البقرة - آیت 273

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

حیرات تو ان حاجت مندوں کا حق ہے جو (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہوکر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کام کے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہو کر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کا مکے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (معیشت کی ڈھونڈھ میں) نکلیں اور دوڑ دھوپ کریں (پھر باوجود فقر و فاقے کے ان کی خود داری کا یہ حال ہے کہ) ناواقف آدمی دیکھے، تو خیال کرے انہیں کسی طرح کی احتیاج نہیں۔ تم ان کے چہرے دیکھ کر ان کی حالت جان لے سکتے ہو، لیکن وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کبھی سوال کرنے والے نہیں۔ اور (یاد رکھو) تم جو کچھ بھی نیکی کی راہ میں خرچ کرو گے تو اللہ اس کا علم رکھنے والا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس سے مراد وہ مہاجرین ہیں جو مکہ سے مدینہ آئے اور اللہ کے راستے میں ہر چیز سے کٹ گئے۔ دینی علوم حاصل کرنے والے طلبا اور علما بھی اس کی ذیل میں آسکتے ہیں۔ 2- گویا اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ فقر وغربت کے باوجود وہ تَعَفُّفْ ( سوال سے بچنا) اختیار کرتے اور الحاف (چمٹ کر سوال کرنا) سے گریز کرتے ہیں۔ بعض نے الحاف کے معنی کئے ہیں، بالکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلے صفت عفت بیان کی گئی ہے (فتح القدیر) اور بعض نے کہا ہے کہ وہ سوال میں الحاح وزاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے۔ اس لئے کہ الحاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے مانگے اس مفہوم کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ [ مسکین وہ نہیں ہے جو ایک ایک دو دو کھجور یا ایک ایک، دو دو لقمے کے لئے در در پر جا کر سوال کرتا ہے۔ مسکین تو وہ ہے جو سوال سے بچتا ہے ]، پھر نبی (ﷺ) نے آیت ﴿لا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا﴾ کا حوالہ پیش فرمایا (صحیح بخاری، التفسیر والزکاۃ )۔ اس لئے پیشہ ور گداگروں کی بجائے، مہاجرین، دین کے طلبا علما اور سفید پوش ضرورت مندوں کا پتہ چلا کر ان کی امداد کرنی چاہیے۔ جو سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا انسان کی عزت نفس اور خودداری کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں حدیث میں آتا ہے کہ جس کے پاس ما يغني ہو [ یعنی اتنا سامان ہو جو اس کی کفایت کرتا ہو ]، لیکن اس کے باوجود وہ لوگوں سے سوال کرے گا، تو قیامت والے دن اس کے چہرے پر زخم ہوں گے۔ (رواه أهل السنن الأربعة - ترمذي، كتاب الزكاة) اور بخاری ومسلم کی روایت میں ہے کہ ”ہمیشہ لوگوں سے سوال کرنے والے کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا“۔ (بحواله مشكاة، كتاب الزكاة باب من لا تحل له المسالة ومن تحل له)