وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
(برخلاف اس کے) جو لوگ اپنا مال (نمود و نمائش کے لیے نہیں، بلکہ) اللہ کی خوشنوی کی طلب میں اپنے دل کے جماؤ کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اونچی زمین پر اگایا ہوا باغ۔ اس پر پانی برسا تو دو چند پھل پھول پیدا ہوگئے اور اگر زور سے پانی نہ برسے، تو ہلکی بوندیں بھی اسے شاداب کردینے کے لیے کافی ہیں ! اور یاد رکھو تم جو کچھ بھی کرتے ہو، اللہ کی نظر سے پوشیدہ نہیں
1- یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پرفضا اور بلند چوٹی پر ہو، کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اس کو کافی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ان کے نفقات بھی، چاہے کم ہو یا زیادہ، عنداللہ کئی کئی گنا اجر وثواب کے باعث ہوں گے جَنَّةٌ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ، جس کے چاروں طرف باڑھ ہو اور باڑھ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے، جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی، پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا، دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اور جنت کو بھی اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ ربوۃ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔ وابل تیز بارش۔