الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
یہ (مظلوم مسلمان) وہ ہیں کہ اگر ہم نے زمین میں انہیں صاحب اقتدار کردیا (یعنی ان کا حکم چلنے لگا) تو وہ نماز (کا نظم) قائم کریں گے، زکوۃ کی ادائیگی میں سرگرم ہوں گے، نیکیوں کا حکم دیں گے، برائیاں روکیں گے، اور تمام باتوں کا انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔
1- اس آیت میں اسلامی حکومت کے بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں، جنہیں خلافت راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت وخوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور سرفراز بھی رہے۔ آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد اللہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی برکت سے وہ اب بھی امن وخوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی مملکت ہے۔ آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہرآنے جانے والاحکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بدامنی، فساد، قتل وغارت اور ادبار وپستی اور زبوں حالی روز افزوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح وکامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامت صلوۃ وزکوۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سرفہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی ممللکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ 2- یعنی ہر بات کا مرجع اللہ کا حکم اور اس کی تدبیر ہی ہے اس کے حکم کے بغیر کائنات میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چہ جائیکہ کوئی اللہ کے احکام اور ضابطوں سے انحراف کرکے حقیقی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔