سورة البقرة - آیت 254

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مسلمانوں ! ہم نے مال و متاع دنیا میں سے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے، اسے ( صرف اپنے نفس کے آرام و راحت پر نہیں بلکہ راہ حق میں بھی) خرچ کرو اور ہاتھ نہ روکو۔ قبل اس کے کہ (زندگی کی عارضی مہلت ختم ہوجائے، اور آنے والا دن سامنے آئے جائے۔ اس دن نہ تو (دنیا کی طرح) خرید و فروخت ہوسکے گی (کہ قیمت دے کر نجات خرید لو)، نہ کسی کی یاری کام آئے گی (کہ اس کے سہارے گناہ بخشوا لو) نہ ایسا ہی ہوسکے گا کہ کسی کی سعی و سفارش سے کام نکال لیا جائے، (اس دن صرف عمل ہی نجات دلا سکے گا) اور یاد رکھو، جو لوگ اس حقیقت سے) منکر ہیں، تو یقینا یہی لوگ ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہود و نصاریٰ اور کفار ومشرکین اپنے اپنے پیشواؤں یعنی نبیوں، ولیوں، بزرگوں، پیروں، مرشدوں وغیرہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دباؤ سے اسے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منواسکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں۔ اسی کو وہ شفاعت کہتے تھے۔ یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہی تھا جو آج کل کے جاہلوں کا ہے کہ ہماے بزرگ اللہ کے پاس اڑ کر بیٹھ جائیں گے، اور بخشوا کر اٹھیں گے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں۔ پھر اس کے بعد آیت الکرسی میں اور دوسری متعدد آیات واحادیث میں بتایا گیا کہ اللہ کے یہاں ایک دوسری قسم کی شفاعت بےشک ہوگی، مگر یہ شفاعت وہی لوگ کرسکیں گے۔ جنہیں اللہ اجازت دے گا۔ اور صرف اسی بندے کے بارے میں کرسکیں گے جس کے لئے اللہ اجازت دے گا۔ اور اللہ صرف اور صرف اہل توحید کے بارے میں اجازت دے گا۔ یہ شفاعت فرشتے بھی کریں گے، انبیا ورسل بھی، اور شہدا وصالحین بھی۔ مگر اللہ پر ان میں کسی بھی شخصیت کا کوئی دباؤ نہ ہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ خود اللہ کے خوف سے اس قدر لرزاں وترساں ہوں گے کہ ان کے چہروں کا رنگ اڑ رہا ہوگا۔ ﴿وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ﴾ (الأنبياء : 28)۔