وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
اور (دیکھو) ہم نے (سمندر کی) تند ہواؤں کو بھی سلیمان کے لیے کیسا مسخر کردیا تھا کہ اس کے حکم پر چلتی تھیں اور اس سرزمین کے رخ پر جس میں ہم نے بڑی ہی برکت رکھ دی ہے (یعنی فلسطین اور شام کے رخ پر جہاں بحر احمر اور بحر متوسط سے دور دور کے جہاز آتے تھے) اور ہم ساری باتوں کی آگاہی رکھتے ہیں۔
1- یعنی جس طرح پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد (عليہ السلام) کے لئے مسخر کر دیئے تھے، اسی طرح ہوا حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے تابع کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے اعیان سلطنت سمیت تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور جہاں چاہتے، مہینوں کی مسافت، لمحوں اور ساعتوں میں طے کرکے وہاں پہنچ جاتے، ہوا آپ کے تخت کو اڑا کر لے جاتی۔ بابرکت زمین سے مراد شام کا علاقہ ہے۔