فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ
پس ہم نے سلیمان کو اس بات کی پوری سمجھ دے دی اور ہم نے حکم دینے کا منصب اور (نبوت کا) علم ان میں سے ہر ایک کو عطا فرمایا تھا، نیز ہم نے پہاڑوں کو داؤد کے لیے مسخر کردیا تھا، وہ اللہ کی پاکی کی صدائیں بلند کرتے تھے اور اسی طرح پرندوں کو بھی، اور ہم (ایسا ہی) کرنے والے تھے۔
1- مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں، دوسرے شخص کے کھیت میں رات کو جا گھسیں اور اس کی کھیتی چر گئیں۔ حضرت داؤد (عليہ السلام) نے جو پیغمبر کے ساتھ حکمران بھی تھے فیصلہ دیا کہ بکریاں، کھیت والا لے لے تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہو جائے۔ حضرت سلیمان (عليہ السلام) نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کچھ عرصے کے لئے کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں، وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیتی بکری والے کے سپرد کر دی جائے تاکہ وہ کھیتی کی آب پاشی اور دیکھ بھال کرکے، اسے صحیح کرے، جب وہ اس حالت میں آجائے جو بکریوں کے چرنے سے پہلے تھی تو کھیتی، کھیتی والے کو اور بکریاں، بکری والے کو واپس کر دی جائیں۔ پہلے فیصلے کے مقابل میں دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اس میں کسی کو بھی اپنی چیز سے محروم ہونا نہیں پڑا۔ جب کہ پہلے فیصلے میں بکری والے اپنی بکریوں سے محروم کر دیئے گئے تھے۔ تاہم اللہ نے حضرت داؤد (عليہ السلام) کی بھی تعریف کی اور فرمایا کہ ہم نے ہر ایک کو (یعنی داؤد عليہ السلام اور سلیمان عليہ السلام دونوں کو) علم و حکمت سے نوازا تھا۔ بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ کسی ایک معاملے میں دو الگ الگ (متضاد) فیصلہ کرنے والے دو منصف، بیک وقت دونوں منصفین ہو سکتے ہیں، ان میں ضرور ایک مصیب (درست فیصلہ کرنے والا) ہوگا اور دوسرا غلطی کر کے غلط فیصلہ کرنے والا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ غلطی سے غلط فیصلہ کرنے سے گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اسے ایک اجر ملے گا۔ کما فی الحدیث (فتح القدیر)۔ 2- اس سے مراد یہ نہیں کہ پہاڑ ان کی تسبیح کی آواز سے گونج اٹھتے تھے (کیونکہ اس میں تو کوئی اعجاز ہی باقی نہیں رہتا)، ہر کہ ومہ کی اونچی آواز سے پہاڑوں میں گونج پیدا ہوسکتی ہے۔ بلکہ مطلب حضرت داود (عليہ السلام) کی تسبیح کے ساتھ پہاڑوں کا بھی تسبیح پڑھان ہے۔ نیز یہ مجازاً نہیں حقیقتاً تھا۔ 3- یعنی پرندے بھی داؤد (عليہ السلام) کی سوز آواز سن کر اللہ کی تسبیح کرنے لگتے،والطیر یا تو مفتوح ہے اور اس کا عطف الجبال پر ہے یا پھر یہ مرفوع ہے اور خبر محذوف کا مبتدا ہے یعنی والطیر مسخرات۔ مطلب یہ ہے کہ پرندے بھی داؤد (عليہ السلام) کے لئے مسخر کر دیئے گئے تھے (فتح القدیر) 4- یعنی یہ تفہیم، ایتائے حکم اور تسخیر، ان سب کے کرنے والے ہم ہی تھے، اس لئے ان میں کسی کو تعجب کرنے کی یا انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔