وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اور پھر جب وہ میدان جنگ میں جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے آئے تو انہوں نے کہا۔ "خدایا (تو دیکھ رہا ہے کہ ہم کمزور ہیں اور تھوڑے ہیں اور مقابلہ ان سے ہے جو طاقتور ہیں اور بہت ہیں۔ پس) ہم (صبر و ثبات کے پیاسوں) پر صبر (کے جام) انڈیل دے (کہ عزم و ثبات سے سیراب ہوجائیں) اور ہمارے قدم میدان جنگ میں جما دے (کہ کسی حال میں بھی پیچھے نہ ہٹھیں) اور پھر (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کر کہ منکرین حق کے گروہ پر فتح مند ہوجائیں
* جالوت اس دشمن قوم کا کمانڈو اور سربراہ تھا جس سے طالوت اور ان کے رفقا کا مقابلہ تھا۔ یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر قوم سمجھی جاتی تھی۔ ان کی اسی شہرت کے پیش نظر، عین معرکہ آرائی کے وقت اہل ایمان نے بارگاہ الٰہی میں صبروثبات اور کفر کے مقابلے میں ایمان کی فتح وکامیابی کی دعا مانگی۔ گویا مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نصرت الٰہی کے لئے ایسے موقعوں پر بطور خاص طلبگار رہیں، جیسے جنگ بدر میں نبی (ﷺ) نے نہایت الحاح وزاری سے فتح ونصرت کی دعائیں مانگیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کافروں کی بڑی تعداد پر غالب آئی۔