سورة الأنبياء - آیت 44

بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اصل یہ ہے کہ ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو (فوائد زندگی سے) بہرہ ور ہونے کے موقع دیے یہاں تک کہ (خوشحالیوں کی سرشاری میں) ان کی بڑی بڑی عمریں گزر گئیں (اور اب غفلت ان کی رگ رگ میں رچ گئی ہے) مگر کیا یہ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو چاروں طرف سے ان پر تنگ کرتے ہوئے چلے آرہے ہیں؟ پھر کیا وہ (اس مقابلہ میں) غالب ہورہے ہیں؟

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی ان کی یا ان کے آبا واجداد، کی زندگیاں اگر عیش و راحت میں گزر گئیں تو کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں؟ اور آئندہ بھی انہیں کچھ نہیں ہوگا؟ نہیں بلکہ یہ چند روزہ زندگی کا آرام تو ہمارے اصول مہلت کا ایک حصہ ہے، اس سے کسی کو دھوکا اور فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ 2- یعنی ارض کفر بتدریج گھٹ رہی ہے اور دولت اسلام وسعت پذیر ہے۔ کفر کے پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے اور اسلام کا غلبہ بڑھ رہا ہے اور مسلمان علاقے پر علاقہ فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔ 3- یعنی کفر کو سمٹتا اور اسلام کو بڑھتا ہوا دیکھ کر بھی، کیا وہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غالب ہیں؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی وہ غالب نہیں، مغلوب ہیں، فاتح نہیں، مفتوح ہیں، معزز و سر فراز نہیں، ذلت اور خواری ان کا مقدر ہے۔