وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور اگر ایسا ہو کہ تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی ہو اور جو کچھ (مہر) مقرر کرنا تھا مقرر کرچکے ہو، تو اس صورت میں مقررہ مہر کا آدھا دینا چاہیے۔ الا یہ کہ عورت (اپنی خوشی سے) معاف کردے یا (مرد) جس کے ہاتھ میں نکاح کا رشتہ ہے (پورا مہر دے کر آدھی رقم رکھ لینے کے حق سے) درگزر کرے۔ اور اگر تم (مرد) درگزر کروگے تو یہ زیادہ تقوے کی بات ہوگی۔ دیکھو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان اور بھلائی کرنا نہ بھولو اور یاد رکھو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کی نظر سے مخفی نہیں ہے
* یہ دوسری صورت ہے کہ مساس (خلوت صحیحہ) سے قبل ہی طلاق دے دی اور حق مہر بھی مقرر تھا۔ اس صورت میں خاوند کے لئے ضروری ہے کہ نصف مہر ادا کرے۔ الا یہ کہ عورت اپنا یہ حق معاف کردے۔ اس صورت میں خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑے گا۔ ** اس سے مراد خاوند ہے، کیوں کہ نکاح کی گرہ (اس کا توڑنا اور باقی رکھنا) اس کے ہاتھ میں ہے، یہ نصف حق مہر معاف کردے، یعنی ادا شدہ حق مہر میں سے نصف مہر واپس لینے کی بجائے، اپنا یہ حق (نصف مہر) معاف کردے اور پورے کا پورا مہر عورت کو دے دے۔ اس سے آگے آپس میں فضل واحسان کو نہ بھولنے کی تاکید کرکے حق مہر میں بھی اسی فضل واحسان کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ملاحظہ : بعض نے بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ سے عورت کا ولی مراد لیا ہے کہ عورت معاف کردے یا اس کا ولی معاف کر دے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ ایک تو عورت کے ولی کے ہاتھ میں عقدۂ نکاح نہیں، دوسرے مہر عورت کا حق اور اس کا مال ہے، اسے معاف کرنے کا حق بھی ولی کو حاصل نہیں۔ اس لئے وہی تفسیر صحیح ہے جو آغاز میں کی گئی ہے (فتح القدیر ) ضروری وضاحت : طلاق یافتہ عورتوں کی چار قسمیں ہیں : 1- جن کا حق مہر بھی مقرر ہے، خاوند نے مجامعت بھی کی ہے ان کو پورا حق مہر دیا جائے گا۔ جیسا کہ آیت میں اس کی تفصیل ہے۔ ** حق مہر بھی مقرر نہیں، مجامعت بھی نہیں کی گئی، ان کو صرف متعہ طلاق دیا جائے گا۔ *** حق مہر مقرر ہے، لیکن مجامعت نہیں کی گئی، ان کو نصف مہر دینا ضروری ہے (ان دونوں کی تفصیل، زیرنظر آیت میں ہے )۔ 4-مجامعت کی گئی ہے، لیکن حق مہر مقرر نہیں، ان کے لئے مہر مثل ہے، مہر مثل کا مطلب ہے اس عورت کی قوم میں جو رواج ہے، یا اس جیسی عورت کے لئے بالعموم جتنا مہر مقرر کیا جاتا ہو۔ (نیل الاوطاروعون المعبود )