سورة طه - آیت 72

قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

انہوں نے کہا ہم یہ کبھی نہیں کرسکتے کہ (سچائی کی) جو روشن دلیلیں ہمارے سامنے آگئی ہیں اور جس خدا نے ہمیں پیدا کیا ہے اس سے منہ موڑ کر تیرا حکم مان لیں، تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے کر گزر، تو زیادہ سے زیادہ جو کرسکتا ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کی اس زندگی کا فیصلہ کردے (اس سے زیادہ تیرے اختیار میں کچھ نہیں)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب وَالَّذِي فَطَرَنَا کا عطف مَا جَاءَنَا پر ہو اور یہ بھی صحیح ہے تاہم بعض مفسرین نے اسے قسم قرار دیا ہے۔ یعنی قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہم تجھے ان دلیلوں پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے سامنے آ چکیں۔ 2- یعنی تیرے بس میں جو کچھ ہے وہ کر لے ہمیں معلوم ہے کہ تیرا بس صرف اس دنیا میں ہی چل سکتا ہے جب کہ ہم جس پروردگار پر ایمان لائے ہیں اس کی حکمرانی تو دنیا وآخرت دونوں جگہوں پر ہے مرنے کے بعد ہم تیری حکمرانی اور تیرے ظلم وستم سے تو بچ جائیں گے، کیونکہ جسموں سے روح کے نکل جانے کے بعد تیرا اختیار ختم ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہم اپنے رب کے نافرمان رہے ،تو ہم مرنے کے بعد بھی رب کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے، وہ ہمیں سخت عذاب دینے پر قادر ہے۔ رب پر ایمان لانے کے بعد ایک مومن کی زندگی میں جو عظیم انقلاب آنا اور دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی پر جس طرح یقین ہونا چاہیے اور پھر اس عقیدہ وایمان پر جو تکلیفیں آئیں، انہیں جس حوصلہ وصبر اور عزم واستقامت سے برداشت کرنا چاہیے، جادو گروں نے اس کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا کہ ایمان لانے سے قبل کس طرح وہ فرعون سے انعامات اور دنیاوی جاہ ومنصب کے طالب تھے لیکن ایمان لانے کے بعد کوئی ترغیب وتحریض انہیں متزلزل کر سکی نہ تشدید وتعذیب کی دھمکیاں انہیں ایمان سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔