نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
(جہاں تک وظیفہ زوجیت کا تعلق ہے) تمہاری عورتیں تمہارے لیے ایسی ہیں جیسے کاشت کی زمین پس جس طرح بھی چاہو اپنی زمین) فطری طریقہ سے) کاشت کرو اور اپنے لیے مستقبل کا سروسامان کرو (اور اصلی بات یہ ہے کہ ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو، اور یہ بات نہ بھولو کہ (ایک دن تمہیں مرنا اور) اس کے حضور حاضر ہونا ہے، اور ان کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں (دین حق کی سہولتوں اور بے جا قید و بند سے پاک ہونے کی) بشارت ہے
1- یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو پیٹ کے بل لٹا کر (مُدْبِرَةً) مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس کی تردید میں کہا جارہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر، جس طرح چاہو، جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو۔ بعض لوگ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آجاتی ہے، لہذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ جب قرآن نے عورت کو کھیتی قرار دیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ (اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو، آؤ) اور یہ کھیتی (موضع ولد) صرف فرج ہے نہ کہ دبر۔ بہرحال یہ غیرفطری فعل ہے ایسے شخص کو جو اپنی عورت کی دبر استعمال کرتا ہے ملعون قرار دیا گیا ہے (بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر )