وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
اور اے پیغمبر ! لوگ تم سے عورتوں کے ماہواری ایام کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ان سے کہہ دو وہ مضرت (کا وقت) ہے۔ پس چاہیے کہ ان دنوں میں عورتوں سے علیحدہ رہو۔ اور جب تک وہ (ایما سے فارغ ہوکر) پاک و صاف نہ ہو لیں ان سے نزدیکی نہ کرو۔ اور (یہ بات بھی یاد رکو کہ) جب وہ پاک صاف ہولیں اور تم ان کی طرف ملتفت ہو، تو اللہ نے (فطری طور پر) جو بات جس طرح ٹھہرا دی ہے اسی کے مطابق ہونی چاہیے۔ (اس کے علاوہ کسی دوسری خلاف فطرت بات کا خیال نہ کرو) اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو (برائی سے) پناہ مانگنے والے ہیں اور ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو پاکی وہ صفائی رکھنے والے ہیں
* بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے، اسے حیض کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے، اسے استحاضہ کہتے ہیں، جس کا حکم حیض سے مختلف ہے۔ حیض کے ایام میں عورت سے نماز معاف ہے اور روزے رکھنا ممنوع ہیں، تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ مرد کے لئے صرف ہم بستری منع ہے، البتہ بوس وکنار جائز ہے۔ اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر گھر کا ہر کام کرسکتی ہے، لیکن یہودیوں میں ان دنوں میں عورت کو بالکل نجس سمجھا جاتا تھا، وہ اس کے ساتھ اختلاط اور کھانا پینا بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے اس کی بابت حضور (ﷺ) سے پوچھا تو یہ آیت اتری، جس میں صرف جماع کرنے سے روکا گیا۔ علیحدہ رہنے اور قریب نہ جانے کا مطلب صرف جماع سے ممانعت ہے۔ (ابن کثیر وغیرہ ) ** جب وہ پاک ہوجائیں۔ اس کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں ” ایک خون بند ہوجائے“ یعنی پھر غسل کیے بغیر بھی پاک ہیں، مرد کے لئے ان سے مباشرت کرنا جائز ہے۔ ابن حزم اور بعض ائمہ اس کے قائل ہیں۔ علامہ البانی نے بھی اس کی تائید کی ہے (آداب الزفاف ص 47) دوسرے معنی ہیں، خون بند ہونے کے بعد غسل کرکے پاک ہوجائیں۔ اس دوسرے معنی کے اعتبار سے عورت جب تک غسل نہ کرلے، اس سے مباشرت حرام رہے گی۔ امام شوکانی نے اس کو راجح قرار دیا ہے (فتح القدیر) ہمارے نزدیک دونوں مسلک قابل عمل ہیں، لیکن دوسرا قابل ترجیح۔ *** ”جہاں سے اجازت دی ہے“ یعنی شرمگاہ سے۔ کیوں کہ حالت حیض میں بھی اسی کے استعمال سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جارہی ہے تو اس کا مطلب اسی (فرج، شرمگاہ) کی اجازت ہے، نہ کہ کسی اور حصے کی۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے، جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید صراحت کردی گئی ہے۔