سورة الكهف - آیت 105

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہی لوگ ہیں کہ اپنے پروردگار کی آیتوں سے اور اس کے حضور حاضر ہونے سے منکر ہوئے، پس ان کے سارے کام اکارت گئے اور اس لیے قیامت کے دن ہم ان (کے اعمال) کا کوئی وزن تسلیم نہیں کریں گے۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* رب کی آیات سے مراد توحید کے وہ دلائل ہیں جو کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ آیات تشریعی ہیں اور جو اس نے اپنی کتابوں میں نازل کیں اور پیغمبروں نے تبلیغ وتوضیح کی۔ اور رب کی ملاقات سے کفر کا مطلب آخرت کی زندگی اور دوبارہ جی اٹھنے سے انکار ہے۔ ** یعنی ہمارے ہاں ان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوگی یا یہ مطلب ہے کہ ہم ان کے لئے میزان کا اہتمام ہی نہیں کریں گے کہ جس میں ان کے اعمال تولے جائیں، اس لئے کہ اعمال تو موحدین کے تولے جائیں گے جن کے نامہ اعمال میں نیکیاں اور برائیاں دونوں ہونگی، جب کہ ان کے نامہ اعمال حسنات سے بالکل خالی ہوں گے جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ”قیامت والے دن موٹا تازہ آدمی آئے گا، اللہ کے ہاں اس کا اتنا وزن نہیں ہوگا جتنا مچھر کے پر کا ہوتا ہے“، پھر آپ (ﷺ) نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری۔ سورہ کہف)