سورة الكهف - آیت 82

وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور وہ جو دیوار درست کردی گئی تو (اس کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، وہ) شہر کے دو یتیم لڑکوں کی ہے، جس کے نیچے ان کا خزانہ گڑا ہوا ہے۔ ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا پس تمہارے پر پروردگار نے چاہا دونوں لڑکے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ محفوظ پاکر نکال لیں۔ (اگر وہ دیوار گرجاتی تو ان کا خزانہ محفوظ نہ رہتا اس لیے ضروری ہوا کہ اسے مضبوط کردیا جائے) یہ ان لڑکوں کے حال پر پروردگار کی ایک مہربانی تھی جو اس طرح ظہور میں آئی۔ اور یاد رکھو میں نے جو کچھ کیا اپنے اختیار سے نہیں کیا (اللہ کے حکم سے کیا) یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کرسکے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- حضرت خضر کی نبوت کے قائلین کی یہ دوسری دلیل ہے جس سے وہ نبوت خضر کا اثبات کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی غیر نبی کے پاس اس قسم کی وحی نہیں آتی کہ وہ اتنے اتنے اہم کام کسی اشارہ غیبی پر کر دے، نہ کسی غیر نبی کا ایسا اشارہ غیبی قابل عمل ہی ہے۔ نبوت خضر کی طرح حیات خضر بھی ایک حلقے میں مختلف ہے اور حیات خضر کے قائل بہت سے لوگوں کی ملاقاتیں حضرت خضر سے ثابت کرتے ہیں اور پھر ان سے ان کے اب تک زندہ ہونے پر دلیل پیش کرتے ہیں لیکن جس طرح حضرت خضر کی زندگی پر کوئی آیت شرعی نہیں ہے، اسی طریقے سے لوگوں کے مکاشفات یا حالت بیداری یا نیند میں حضرت خضر سے ملنے کے دعوے بھی قابل تسلیم نہیں۔ جب ان کا حلیہ ہی معقول ذرائع سے بیان نہیں کیا گیا ہے تو ان کی شناخت کس طرح ممکن ہے؟ اور کیوں کر یقین کیا جا سکتا ہے، کہ جن بزرگوں نے ملنے کے دعوے کئے ہیں، واقعی ان کی ملاقات خضر، موسیٰ (عليہ السلام) سے ہی ہوئی ہے، خضر کے نام سے انہیں کسی نے دھوکہ اور فریب نے مبتلا نہیں کیا۔