سورة الكهف - آیت 74

فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر وہ دونوں آگے چلے، یہاں تک کہ (ایک بستی کے قریب پہنچے اور) انہیں ایک لڑکا ملا، موسیٰ کے ساتھ اسے قتل کر ڈالا، اس پر موسیٰ بولا اٹھا : آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اس نے کسی کی جان نہیں لی تھی، آپ نے کیسی برائی کی بات کی؟

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- غلام سے مراد بالغ جوان بھی ہو سکتا ہے اور نابالغ بچہ بھی۔ 2- نُكْرًا یعنی ”فَظِيعًا مُنْكَرًا لا يُعْرَفُ فِي الشَّرْعِ“ کہ ایسا بڑا برا کام جس کی شریعت میں گنجائش نہیں، بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی ہیں ”أَنْكَرُ مِنَ الأَمْرِ الأَوَّلِ“ پہلے کام (کشتی کے تختے توڑنے) سے زیادہ برا کام۔ اس لئے کہ قتل، ایسا کام ہے جس کا تدارک اور ازالہ ممکن نہیں۔ جبکہ کشتی کے تختے اکھیڑ دینا، ایسا کام ہے جس کا تدارک اور ازالہ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو جو علم شریعت حاصل تھا، اس کی رو سے حضرت خضر کا یہ کام بہرحال خلاف شرع تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے اعتراض کیا اور اسے نہایت برا کام قرار دیا۔