سورة الكهف - آیت 24

إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب کبھی بھول جاؤ تو اپنے پروردگار کی یاد تازہ کرلو، تم کہو امید ہے میرا پروردگار اس سے بھی زیادہ کامیابی کی راہ مجھ پر کھول دے گا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی سے تین باتیں پوچھی تھیں، روح کی حقیقت کیا ہے اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کون تھے؟ کہتے ہیں کہ یہی سوال اس سورت کے نزول کا سبب بنا نبی (ﷺ) نے فرمایا میں تمہیں کل جواب دونگا، لیکن اس کے بعد 15 دن تک جبرائیل وحی لے کر نہیں آئے۔ پھر جب آئے تو اللہ تعالٰی نے ان شاء اللہ کہنے کا یہ حکم دیا۔ آیت میں ”غد“ سے مراد مستقبل ہے یعنی جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا عزم کرو تو ان شاء اللہ ضرور کہا کرو۔ کیونکہ انسان کو تو پتہ نہیں کہ جس بات کا عزم کر رہا ہے، اس کی توفیق بھی اسے اللہ کی مشیت سے ملتی ہے یا نہیں۔ 2- یعنی اگر کلام یا وعدہ کرتے وقت ان شاء اللہ کہنا بھول جاؤ، تو جس وقت یاد آجائے ان شاء اللہ کہہ لیا کرو، یا پھر رب کو یاد کرنے کا مطلب، اس کی تسبیح و تحمید اور اس سے استفغار ہے۔ 3- یعنی میں جس کا عزم ظاہر کر رہا ہوں، ممکن ہے اللہ تعالٰی اس سے زیادہ بہتر اور مفید کام کی طرف میری رہنمائی فرما دے۔