وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا
اور تم انہیں دیکھو تو خیال کرو یہ جاگ رہے ہیں (یعنی زندہ ہی) حالانکہ وہ سو رہے ہیں (یعنی مردہ ہیں) ہم انہیں داہنے بائیں پلٹتے رہتے ہیں (یعنی ان کی کروٹ بدلتی رہتی ہے) اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے۔ اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو۔ تم پر (ان کے منظر سے) دہشت چھا جائے۔
* أَيْقَاظٌ, يَقِظٌ کی جمع اور رُقُودٌ راقد کی جمع ہے وہ بیدار اس لئے محسوس ہوتے تھے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوتی تھیں، جس طرح جاگنے والے شخص کی ہوتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں زیادہ کروٹیں بدلنے کی وجہ سے وہ بیدار نظر آتے تھے۔ ** تاکہ ان کے جسموں کو مٹی نہ کھا جائے۔ *** یہ ان کی حفاظت کے لئے اللہ تعالٰی کی طرف سے انتظام تھا تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جاسکے۔