وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ۗ مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
اور وہ جس غار میں جاکر بیھے وہ اس طرح واقع ہوئی کہ جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ ان کے داہنے جانب سے ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب ڈوبے تو بائیں طرف کترا کر نکل جاتا ہے (یعنی کسی حال میں بھی اس کی شعاعیں اندر نہیں پہنچتیں) اور وہ اس کے اندر ایک کشادہ جگہ میں پڑے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے (کہ انہوں نے حق کی خاطر دنیا اور دنیا کے سارے علاقے چھوڑ دیئے) جس کسی پر وہ (کامیابی کی) راہ کھول دے تو وہی راہ پر ہے اور جس پر گم کردے تو تم کسی کو اس کا کارساز اس کا راہ دکھانے والا نہ پاؤ گے۔
* یعنی سورج طلوع کے وقت دائیں جانب کو اور غروب کے وقت بائیں جانب کو کترا کر نکل جاتا اور یوں دونوں وقتوں میں ان پر دھوپ نہ پڑتی، حالانکہ وہ غار میں کشادہ جگہ پر محو استراحت تھے۔ فَجْوَة کے معنی ہیں کشادہ جگہ۔ ** یعنی سورج کا اس طرح نکل جانا کہ باوجود کھلی جگہ ہونے کے وہاں دھوپ نہ پڑے، اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ *** جیسے دقیانوس بادشاہ اور اس کے پیروکار ہدایت سے محروم رہے تو کوئی انہیں راہ یاب نہیں کر سکا۔