سورة الإسراء - آیت 60

وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغبر ! وہ وقت یاد کرو) جب تیرے پروردگار نے تجھ سے کہا تھا یقین کر، تیرے پروردگار نے لوگوں کو گھیرے میں لے لیا ہے (یعنی اب وہ دعوت حق کے دائرے سے باہر نکل سکتے) اور رویا جو ہم نے تجھے دکھائی تو اسی لیے دکھائی کہ لوگوں کے لیے ایک آزمائش ہو، اسی طرح اس درخت کا ذکر جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم انہیں (طرح طرح سے) ڈراتے ہیں لیکن ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا، پڑتا ہے تو صرف یہی کہ اپنی سرکشیوں میں اور زیادہ بڑھتے جاتے ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی لوگ اللہ کے غلبہ و تصرف میں ہیں اور جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ جو وہ چاہیں گے، یا مراد اہل مکہ ہیں کہ وہ اللہ کے زیر اقتدار ہیں، آپ بےخوفی سے تبلیغ رسالت کیجئے، وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ یا جنگ بدر اور فتح مکہ کے موقع پر جس طرح اللہ نے کفار مکہ کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا، اس کو واضح کیا جارہا ہے۔ 2- صحابہ وتابعین (رضی الله عنہم) نے اس رویا کی تفسیر عینی رؤیت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے، جو بہت سے کمزور لوگوں کے لئے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہوگئے۔ اور درخت سے مراد زَقُّومٌ (تھوہر) کا درخت ہے، جس کا مشاہدہ نبی (ﷺ) نے شب معراج، جہنم میں کیا۔ الْمَلْعُونَةَ سے مراد، کھانے والوں پر یعنی جہنمیوں پر لعنت۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے کہ ﴿إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ، طَعَامُ الأَثِيمِ﴾ ( الدخان:44,43)۔ ”زقوم کا درخت، گناہ گاروں کا کھانا ہے“۔ 3- یعنی کافروں کے دلوں میں جو خبث و عناد ہے، اس کی وجہ سے، نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے کی بجائے، ان کی سرکشی وطغیانی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔