سورة الإسراء - آیت 57

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ لوگ جن ہستیوں کو پکارتے ہیں، (اور اللہ کے حضور انہیں وسیلہ تقریب سمجھتے ہیں) وہ تو خود اپنے پروردگار کے حضور (بندگی و اطاعت کے ذڑیعہ سے) وسیلہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ کون اس راہ میں زیادہ قریب ہوتا ہے۔ نیز اس کی رحمت کے متوقع رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ترساں، فی الحقیقت تمہارے پروردگار کا عذاب بڑے ہی ڈرنے کی چیز ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- مذکورہ آیت میں ”مِنْ دُونِ اللهِ“ سے مراد فرشتوں اور بزرگوں کی وہ تصویریں اور مجسمے ہیں جن کی عبادت کرتے تھے، یا حضرت عزیر ومسیح علیہما السلام ہیں جنہیں یہودی اور عیسائی ابن اللہ کہتے ہیں اور انہیں الوہی صفات کا حامل مانتے تھے، یا وہ جنات ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور مشرکین ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس لئے کہ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ یہ تو خود اپنے رب کا قرب تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور یہ صفت جمادات (پتھروں) میں نہیں ہو سکتی۔ اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ مِنْ دُونِ اللهِ (اللہ کے سوا جن کی عبات کی جاتی رہی ہے) وہ صرف پتھر کی مورتیاں ہی نہیں تھیں، بلکہ اللہ کے وہ بندے بھی تھے جن میں سے کچھ فرشتے، کچھ صالحین، کچھ انبیاء اور کچھ جنات تھے۔ اللہ تعالٰی نے سب کی بابت فرمایا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے، نہ کسی کی تکلیف دور کر سکتے ہیں نہ کسی کی حالت بدل سکتے ہیں ”اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں“ کا مطلب اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ یہی الوسیلۃ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے۔ وہ نہیں ہے جسے قبر پرست بیان کرتے ہیں کہ فوت شدہ اشخاص کے نام کی نذر نیاز دو، ان کی قبروں پر غلاف چڑھاؤ اور میلے ٹھیلے جماؤ اور ان سے استمداد و استغاثہ کرو۔ کیونکہ یہ وسیلہ نہیں یہ تو ان کی عبادت ہے جو شرک ہے۔ اللہ تعالٰی ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔