سورة البقرة - آیت 13

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ایمان کی راہ اختیا کرو جس طرح اور لوگوں نے اختیار کی ہے تو کہتے ہیں کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح (یہ) بے وقوف آدمی ایمان لے آئے ہیں (یعنی جس طرح ان لوگوں نے بے سروسامنی و مظلومی کی حالت میں دعوت حق کا ساتھ دیا اسی طرح ہم بھی بے وقوف بن کر ساتھ دے دیں؟) یاد رکھو فی الحقیقت یہی لوگ بے وقوف ہیں اگرچہ (جہہل وغرور کی سرشاری میں اپنی حالت کا) شعور نہیں رکھتے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-ان منافقین نے ان صحابہ (رضی الله عنہم) کو ”بےوقوف“ کہا، جنہوں نے اللہ کی راہ میں جان ومال کی کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور آ کے منافقین یہ باور کراتے ہیں کہ نعوذ باللہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) دولت ایمان ہی سے محروم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جدید وقدیم دونوں منافقین کی تردید فرمائی۔ فرمایا کسی اعلیٰ تر مقصد کے لئے دنیوی مفادات کو قربان کردینا، بے وقوفی نہیں، عین عقل مندی اور سعادت ہے۔ صحابہ (رضی الله عنہم) نے اسی سعادت مندی کا ثبوت مہیا کیا ہے، اس لئے وہ پکے مومن ہی نہیں، بلکہ ایمان کے لئے ایک معیار اور کسوٹی ہیں، اب ایمان ان ہی کا معتبر ہوگا جو صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ہی کی طرح ایمان لائیں گے۔ ﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا﴾ (البقرة: 137). 2- ظاہر بات ہے کہ نفع عاجل (فوری فائدے) کے لئے نفع آجل (دیر سے ملنے والے فائدے) کو نظرانداز کردینا اور آخرت کی پائیدار اور دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی فانی زندگی کو ترجیح دینا اور اللہ کی بجائے لوگوں سے ڈرنا پرلے درجے کی سفاہت ہے جس کا ارتکاب ان منافقین نے کیا۔ یوں ایک مسلمہ حقیقت سے بےعلم رہے۔