سورة الإسراء - آیت 44

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے سب اس کی پاکی و کبریائی کا زمزمہ بلند کر رہے ہیں۔ یہاں کوئی چیز نہیں جو اس کی حمد و ثنا میں زمزمہ سنج نہ ہو، مگر تم ان کی زمزمہ سنجیاں سمجھتے نہیں، بلاشبہ وہ بڑا ہی بردبار ہے بڑا ہی بخشنے والا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی سب اسی کے مطیع اور اپنے اپنے انداز میں اس کی تسبیح و تحمید میں مصروف ہیں۔ گو ہم ان کی تسبیح و تحمید کو نہ سمجھ سکیں۔ اس کی تائید بعض آیات قرآنی سے بھی ہوتی ہے مثلًا حضرت داؤد (عليہ السلام) کے بارے میں آتا ہے ﴿اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ﴾ (ص:18) ”ہم نے پہاڑوں کو داؤد (عليہ السلام) کے تابع کر دیا، بس وہ شام کو اور صبح کو اس کے ساتھ اللہ کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے ہیں“۔ بعض پتھروں کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ﴿وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ﴾ ( البقرۃ:74) ”اور بعض اللہ تعالٰی کے ڈر سے گر پڑتے ہیں“، بعض صحابہ (رضی الله عنہم) بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ انہوں نے کھانے سے تسبیح کی آواز سنی۔ ( صحيح بخاری- كتاب المناقب نمبر 1759)، ایک اور حدیث سے ثابت ہے کہ چیونٹیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں (بخاری، نمبر:3019 مسلم: نمبر1759)، اسی طرح جس تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر رسول اللہ (ﷺ) خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، جب لکڑی کا منبر بن گیا اور اسے آپ (ﷺ) نے چھوڑ دیا تو بچے کی طرح اس سے رونے کی آواز آتی تھی (بخاری نمبر3583) مکے میں ایک پتھر تھا جو رسول (ﷺ) کو سلام کیا کرتا تھا (صحیح مسلم 1782) ان آیات وصحیح حدیث سے واضح ہے کہ جمادات و نباتات کے اندر بھی ایک مخصوص قسم کا شعور موجود ہے، جسے گو ہم نہ سمجھ سکیں، مگر وہ اس شعور کی بنا پر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد تسبیح دلالت ہے یعنی یہ چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام کائنات کا خالق اور ہرچیز پر قادر صرف اللہ تعالٰی ہے۔ وَفِي كُلِّ شَيْءٍ لَهُ آيَةٌ تَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ وَاحِدٌ ”ہرچیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالٰی ایک ہے، لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے کہ تسبیح اپنے حقیقی معنی میں ہے“۔