سورة النحل - آیت 112

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) اللہ نے ایک مثال بیان کی، ایک بستی تھی جہاں ہر طرح کا امن چین تھا، ہر جگہ سے سامان رزق آتا رہتا اور ہر شخص فراغت سے کھاتا پیتا تھا، لیکن پھر ایسا ہوا کہ انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی، تو اللہ نے بھی ان کے کاموں کی پاداش میں انہیں نعمتوں سے محروم کردیا۔ (تنعم کی جگہ) فاقہ اور (اطمینان کی جگہ) خوف ان پر چھا گیا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اکثر مفسرین نے اس قریہ (بستی) سے مراد مکہ لیا ہے۔ یعنی اس میں مکہ اور اہل مکہ کا حال بیان کیا گیا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب اللہ کے رسول نے ان کے لئے بد دعا فرمائی۔ [ اللَّهُمْ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ ] (بخاری نمبر 4821 ۔ مسلم نمبر2156) ”اے اللہ مضر (قبیلے) پر اپنی سخت گرفت فرما اور ان پر اس طرح قحط سالی مسلط کر دے، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں ہوئی“ چنانچہ اللہ تعالٰی نے مکے کے امن کو خوف سے اور خوشحالی کو بھوک سے بدل دیا۔ حتیٰ کہ ان کا یہ حال ہو گیا کہ ہڈیاں اور درختوں کے پتے کھا کر انہیں گزارہ کرنا پڑا۔ اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ غیر معین بستی ہے اور تمثیل کے طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے۔ کہ کفران نعمت کرنے والے لوگوں کا یہ حال ہوگا، وہ جہاں بھی ہوں اور جب بھی ہوں۔ اس کے اس عموم سے جمہور مفسرین کو بھی انکار نہیں ہے، گو نزول کا سبب ان کے نزدیک خاص ہے۔ الْعِبْرَةُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لا بِخُصُوصِ السَّبَبِ