الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
اگر حرم کے مہینوں کے رعایت کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی رعایت ہونی چاہیے۔ اگر نہ کی جائے تو تمہاری طرف سے بھی نہیں ہے۔ (مہینوں کی) حرمت کے معاملہ میں (جب کہ لڑائی ہو) ادلہ کا بدلہ ہے (یعنی جیسی روش ایک فریق جنگ کی ہوگی، ویسی ہی دوسرے فریق کو بھی اختیار کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک فریق تو مہینوں کی حرمت سے بے پروا ہو کر حملہ کردے اور دوسرا فریق حرمت کے خیال سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے) پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو چہایے کہ ججس طرح کا معاملہ اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے ویسا ہی معاملہ تم بھی اس کے ساتھ کرو، البتہ (ہر حال میں) اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات نہ بھولو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (انے تمام کاموں میں) پرہیز گار ہیں
1- 6 ہجری میں رسول اللہ (ﷺ) چودہ سو صحابہ (رضی الله عنہم) کو ساتھ لے کر عمرہ کے لئے گئے تھے، لیکن کفار مکہ نے انہیں مکہ نہیں جانے دیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے لئے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آسکیں گے۔ یہ مہینہ تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ جب دوسرے سال مسلمان حسب معاہدہ اسی مہینے میں عمرہ کرنے کے لئے جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفار مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کرکے (گزشتہ سال کی طرح) تمہیں مکہ میں جانے سے روکیں تو تم بھی اس کی حرمت کو نظرانداز کرکے ان سے بھرپور مقابلہ کرو۔ حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے، یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو، بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظرانداز کرکے کفار کو عبرت ناک سبق سکھاؤ۔ (ابن کثیر)