يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ
وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس غرض سے چن لیتا ہے کہ اپنے حکم سے فرشتے الروح کے ساتھ اس پر بھیجے (یعنی وحی کے ساتھ بھیجے) اور اسے حکم دے کہ لوگوں کو اس حقیقت سے خبردار کرو، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے پس مجھ سے ڈرو (اور انکار و بدعملی سے باز آجاؤ)
1- رُوحٌ سے مراد وحی ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلا الإِيمَانُ﴾ (الشوری:52) ”اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے وحی کی، اس سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ کتاب کیا ہے، اور ایمان کیاہے“۔ 2- مراد انبیاء علیہم السلام ہیں جن پر وحی نازل ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الأنعام:124) ”اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے“۔ ﴿يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلاقِ﴾ (المؤمن:15) ”وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے وحی ڈالتا یعنی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات والے (قیامت کے) دن سے لوگوں کو ڈرائے“۔