سورة ابراھیم - آیت 27

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ ایمان والوں کو جمنے اور مضبوط رہنے والی بات کے ذریعہ سے جماؤ اور مضبوطی دیتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی، اور نافرمانوں پر (جماؤ اور مضبوطی کی) راہ گم کردیتا ہے۔ اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے (اس کی حکمت کا فیصلہ یہی فیصلہ ہوا کہ ایسا کرے)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ ”موت کے بعد قبر میں جب مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے، تو وہ جواب میں اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں“۔ پس یہی مطلب ہے اللہ کے فرمان، ﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ کا (صحيح بخاری، تفسير سورة إبراهيم، وصحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها ، باب عرض مقعد الميت عليه وإثبات عذاب القبر) ایک اور حدیث میں ہے کہ ”جب بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے اٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تیری کیا رائے ہے، وہ مومن ہوتا ہے تو جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ فرشتے اسے جہنم کا ٹھکانا دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کی جگہ تیرے لئے جنت میں ٹھکانا بنا دیا ہے۔ پس وہ دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور اس کی قبر ستر ہاتھ کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس کی قبر کو قیامت تک نعمتوں سے بھر دیا جاتا ہے“۔ (صحیح مسلم، باب مذکور) ایک اثر میں ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے [ مَنْ رَبُّكَ؟ مَا دِينُكَ ؟ مَنْ نَبِيُّكَ؟ ]۔ ”تیرا رب کون ہے، تیرا دین کیا ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے“؟ پس اللہ تعالٰی اسے ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے رَبِّی اللّٰہُ (میرا رب اللہ ہے)، وَدِیْنِیَ الاِ سْلَامُ (میرا دین اسلام ہے) وَنَبِیِّی مُحَمَّد (اور میرے پیغمبر محمد ﷺ ہیں) (تفسیر ابن کثیر)