سورة ابراھیم - آیت 15

وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

غرض پیغمبروں علیہم السلام نے فتح مندی طلب کی اور ہر سرکش ضدی (جس نے حق کا مقابلہ کیا تھا) نامراد ہوا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا ﴿اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ (الانفال:32) ”اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے“۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال:19) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح ونصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔