وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَمَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ
اور اسی طرح یہ بات ہوئی کہ ہم نے اسے (یعنی قرآن کو) ایک عربی فرمان کی شکل میں اتارا (یعنی عربی زبان میں اتارا) اگر حصول علم کے بعد تو نے ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی تو سمجھ لے کہ پھر اللہ کے مقابلہ میں نہ تو تیرا کوئی کارساز ہوگا نہ بچانے والا۔
1- یعنی جس طرح آپ سے پہلے رسولوں پر کتابیں مقامی زبانوں میں نازل کیں، اسی طرح آپ پر قرآن ہم نے عربی زبان میں اتارا، اس لئے کہ آپ کے مخاطب اولین اہل عرب ہیں، جو صرف عربی زبان ہی جانتے ہیں۔ اگر قرآن کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو ان کی سمجھ سے بالا ہوتا اور قبول ہدایت میں ان کے لئے عذر بن جاتا۔ ہم نے قرآن کو عربی میں اتار کر یہ عذر بھی دور کر دیا۔ 2- اس سے مراد اہل کتاب کی بعض وہ خواہشیں ہیں جو وہ چاہتے تھے کہ پیغمبر آخر الزماں انہیں اختیار کریں۔ مثلاً بیت المقدس کو ہمیشہ کے لئے قبلہ بنائے رکھنا اور ان کے معتقدات کی مخالفت نہ کرنا وغیرہ۔ 3- اس سے مراد علم ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ کو عطا کیا گیا، جس میں اہل کتاب کے معتقدات کی حقیقت بھی آپ پر واضح کر دی گئی۔ 4- یہ دراصل امت کے اہل علم کو تنبیہ ہے کہ وہ دنیا کے عارضی مفادات کی خاطر قرآن و حدیث کے واضح احکام کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔