سورة یوسف - آیت 101

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(پھر یوسف نے دعا کی) پروردگار ! تو نے مجھے حکومت عطا فرمائی اور باتوں کا مطلب اور نتیجہ نکالنا تعلیم فرمایا اے آسمان و زمین کے بنانے والے تو ہی میرا کارساز ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تو (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ دنیا سے جاؤں تو تیری فرماں برداری کی حالت میں جاؤں، اور ان لوگوں میں داخل ہوجاؤں جو تیرے نیک بندے ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی ملک مصر کی فرمانروائی عطا فرمائی، جیسا کہ تفصیل گزری۔ 2- حضرت یوسف (عليہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے، جن پر اللہ کی طرف سے وحی کا نزول ہوتا اور خاص خاص باتوں کا علم انہیں عطا کیا جاتا۔ چنانچہ اس علم نبوت کی روشنی میں پیغمبر خوابوں کی تعبیر بھی صحیح طور پر کر لیتے۔ تھے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کو اس فن تعبیر میں خصوصی ملکہ حاصل تھا جیسا کہ قید کے ساتھیوں کے خواب کی اور سات موٹی گایوں کے خواب کی تعبیر پہلے گزری۔ 3- اللہ تعالٰی نے حضرت یوسف (عليہ السلام) پر جو احسانات کیے، انہیں یاد کرکے اور اللہ تعالٰی کی دیگر صفات کا تذکرہ کرکے دعا فرما رہے ہیں کہ جب مجھے موت آئے تو اسلام کی حالت میں آئے اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ اس سے مراد حضرت یوسف (عليہ السلام) کے آباواجداد، حضرت ابراہیم و اسحاق علیہا السلام وغیرہ مراد ہیں۔ بعض لوگوں کو اس دعا سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) نے موت کی دعا مانگی حالانکہ یہ موت کی دعا نہیں ہے آخر وقت تک اسلام پر استقامت کی دعا ہے۔