قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
(چنانچہ بھائیوں نے ایسا ہی کیا اور کنعان آکر یہ ساری باتیں باپ سے کہہ دیں) اس نے (سن کر) کہا، نہیں یہ تو ایک بات ہے جو تمہارے جی نے تمہیں سججھا دی ہے (یعنی بنیامین کا چوری کرنا) خیر ! میرے لیے صبر کے سوا چارہ نہیں، ایسا صبر کہ خوبی کا صبر ہو، اللہ (کے فضل) سے کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ (ایک دن) ان سب کو میرے پاس جمع کردے، وہی ہے جو (سب کچھ) جاننے والا (اور اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
1- حضرت یعقوب (عليہ السلام) چونکہ حقیقت حال سے بےخبر تھے اور اللہ تعالٰی نے وحی کے ذریعے سے انہیں حقیقت واقعہ سے آگاہ نہیں فرمایا۔ اس لئے وہ یہی سمجھے کہ میرے ان بیٹوں نے اپنی طرف سے بات بنا لی ہے۔ بنیامین کے ساتھ انہوں نے کیا معاملہ کیا؟ اس کا یقینی علم تو حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے پاس نہیں تھا، تاہم یوسف (عليہ السلام) کے واقعے پر قیاس کرتے ہوئے ان کی طرف سے حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے دل میں بجا طور پر شکوک شبہات تھے۔ 2- اب پھر سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں تھا، تاہم صبر کے ساتھ امید کا دامن بھی نہیں چھوڑا ۔ جمیعاً سے مراد یوسف علیہ السلام، بنیامین اور وہ بڑا بیٹا ہے جو مارے شرم کے وہیں مصر میں رک گیا تھا کہ یا تو والد صاحب مجھے اسی طرح آنے کی اجازت دے دیں یا پھر میں کسی طریقے سے بنیامین کو ساتھ لے کر آؤں گا۔