سورة یوسف - آیت 81

ارْجِعُوا إِلَىٰ أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تم لوگ باپ کی طرف لوٹ جاؤ اور اس سے جا کر کہو، اے ہمارے باپ ! (ہم کیا کریں) تیرے بیٹے نے (پرائے ملک میں) چوری کی، جو بات ہمارے جاننے میں آئی وہی ہم نے ٹھیک ٹھیک کہہ دی اور ہم غیب کی باتوں کی خبر رکھنے والے نہ تھے (کہ پہلے سے جان لیتے، بنیامین سے ایسی بات سرزد ہونے والی ہے)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی ہم نے جو عہد کیا تھا کہ ہم بنیامین کو باحفاظت واپس لے آئیں گے، تو یہ ہم نے اپنے علم کے مطابق عہد کیا تھا، بعد میں جو واقعہ پیش آگیا اور جس کی وجہ سے بنیامین کو ہمیں چھوڑنا پڑا، یہ تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے ہم نے چوری کی جو سزا بیان کی تھی چور کو ہی چوری کے بدلے میں رکھ لیا جائے، تو یہ سزا ہم نے اپنے علم کے مطابق ہی تجویز کی تھی۔ اس میں کسی قسم کی بدنیتی شامل نہیں تھی۔ لیکن یہ اتفاق کی بات تھی کہ جب سامان کی تلاشی لی گئی تو مسروقہ کٹورا بنیامین کے سامان سے نکل آیا۔ 2- یعنی مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے ہم بےخبر تھے۔