قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
انہوں نے کہا اے عزیز ! اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے، (اور اس سے محبت رکھتا ہے) پس اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے (مگر اسے نہ روکیے) ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو احسان کرنے والے ہیں۔
* حضرت یوسف کو عزیز مصر اس لئے کہا کہ اس وقت اصل اختیارات حضرت یوسف (عليہ السلام) کے ہی پاس تھے، بادشاہ صرف برائے نام فرماں روائے مصر تھا۔ ** باپ تو یقینا بوڑھے ہی تھے، لیکن یہاں ان کا اصل مقصد بنیامین کو چھڑانا تھا۔ ان کے ذہن میں وہی یوسف (عليہ السلام) والی بات تھی کہ کہیں ہمیں پھر دوبارہ بنیامین کے بغیر باپ کے پاس جانا پڑے اور باپ ہم سے کہیں کہ تم نے میرے بنیامین کو بھی یوسف (عليہ السلام) کی طرح کہیں گم کر دیا۔ اس لئے یوسف (عليہ السلام) کے احسانات کے حوالے سے یہ بات کی کہ شاید وہ یہ احسان بھی کر دیں کہ بنیامین کو چھوڑ دیں اور اس کی جگہ کسی اور بھائی کو رکھ لیں۔