سورة یوسف - آیت 53

وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

میں اپنے نفس کی پاکی کا دعوی نہیں کرتی، آدمی کا نفس تو برائی کے لئیے بڑا ہی ابھارنے والا ہے (اس کے غلبہ سے بچنا آسان نہیں) مگر ہاں اسی حال میں کہ میرا پروردگار رحم کرے، بلاشبہ میرا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اسے اگر حضرت یوسف (عليہ السلام) کا قول تسلیم کیا جائے تو بطور کسر نفسی کے ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہو چکی تھی۔ اور اگر یہ عزیزہ مصر کا قول ہے (جیسا کہ امام ابن کثیر کا خیال ہے) تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اپنے گناہ کا اور یوسف (عليہ السلام) کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کر لیا۔ 2- یہ اس نے اپنی غلطی کی توجیہ یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ برائی پر ابھارتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔ 3- یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالٰی کی رحمت ہو، جیسا کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کو اللہ تعالٰی نے بچا لیا۔