قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
(اس پر) یوسف نے کہا خود اسی نے مجھ پر ڈورے ڈالے اور مجبور کیا کہ پھسل پڑوں (میں نے ہرگز ایسا نہیں کیا) اور (پھر ایسا ہوا کہ) اس عورت کے کنبہ والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی، اس نے کہا، یوسف کا کرتا (دیکھا جائے) اگر آگے سے دو ٹکڑے ہوا ہے تو عورت سچی ہے، یوسف جھوٹا ہے۔
* حضرت یوسف (عليہ السلام) نے جب دیکھا کہ وہ عورت تمام الزام ان پر ہی دھر رہی ہے صورت حال واضح کر دی اور کہا کہ مجھے برائی پر مجبور کرنے والی یہی ہے۔ میں اس سے بچنے کے لئے باہر دروازے کی طرف بھاگتا ہوا آیا ہوں۔ ** یہ انہی کے خاندان کا کوئی سمجھدار آدمی تھا جس نے یہ فیصلہ کیا۔ فیصلے کو یہاں شہادت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا، کیونکہ معاملہ ابھی تحقیق طلب تھا۔ شیر خوار بچے کی شہادت والی بات مستند روایات سے ثابت نہیں۔ صحیحین میں تین شیر خوار بچوں کے بات کرنے کی حدیث ہے جن میں یہ چوتھا نہیں ہے جس کا ذکر اس مقام پر کیا جاتا ہے۔