وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور (ایسا ہوا کہ دونوں دروازوں کی طرف دوڑے اس طرح کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے آگے نکل جانا چاہتا تھا (یوسف اس لیے کہ عورت سے بھاگ نکلے، عورت اس لیے کہ اسے نکل بھاگنے سے روکے) اور عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے سے کھینچا اور دو ٹکڑے کردیا، اور (پھر اچانک) دونوں نے دیکھا کہ عورت کا خاوند دروازے کے پاس کھڑا ہے، تب عورت نے (اپنا جرم چھپانے کے لیے فورا بات بنا لی) اور کہا جو آدمی تیرے اہل خانہ کے ساتھ بری بات کا ارادہ کرے۔ اس کی سزا کیا ہونی چاہیے ؟ کیا یہی نہیں ہونی چاہیے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا (کوئی اور) دردناک سزا دی جائے؟
* جب حضرت یوسف (عليہ السلام) نے دیکھا کہ وہ عورت برائی کے ارتکاب پر مصر ہے، تو وہ باہر نکلنے کے لئے دروازے کی طرف دوڑے، یوسف (عليہ السلام) کے پیچھے انہیں پکڑنے کے لئے عورت بھی دوڑی۔ یوں دونوں دروازے کی طرف لپکے اور دوڑے۔ ** یعنی خاوند کو دیکھتے ہی خود معصوم بن گئی اور مجرم تمام تر یوسف (عليہ السلام) کو قرار دے کر ان کے لئے سزا بھی تجویز کر دی۔ حالانکہ صورت حال اس کے برعکس تھی، مجرم خود تھی جب کہ حضرت یوسف (عليہ السلام) بالکل بےگناہ اور برائی سے بچنے کے خواہش مند اور اس کے لئے کوشاں تھے۔