وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ
اور اس کی قوم کے لوگ (اجنبیوں کے آنے کی خبر سن کر) دوڑتے ہوئے آئے، وہ پہلے سے برے کاموں کے عادی ہو رہے تھے، لوط نے ان سے کہا، لوگو یہ میری بیٹیاں ہیں (یعنی بستی کی عورتیں جنہیں وہ اپنی بیٹیوں کی جگہ سمجھتا تھا اور جنہیں لوگوں نے چھوڑ رکھا تھا) یہ تمہارے لیے جائز اور پاک ہیں، پس (ان کی طرف ملتفت ہو، دوسری بات کا قصد نہ کرو اور) اللہ سے ڈرو، میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں؟
* جب اغلام بازی کے ان مریضوں کو پتہ چلا کہ چند خوبرو نوجوان لوط (عليہ السلام) کے گھر آئے ہیں تو دوڑے ہوئے آئے اور انہیں اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کیا، تاکہ ان سے اپنی غلط خواہشات پوری کریں۔ ** یعنی تمہیں اگر جنسی خواہش ہی کی تسکین مقصود ہے تو اس کے لئے میری اپنی بیٹیاں موجود ہیں، جن سے تم نکاح کر لو اور اپنا مقصد پورا کر لو۔ یہ تمہارے لئے ہر طرح سے بہتر ہے۔ بعض نے کہا کہ بنات سے مراد عام عورتیں ہیں اور انہیں اپنی لڑکیاں اس لئے کہا کہ پیغمبر اپنی امت کے لئے بمنزلہ باپ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کام کے لئے عورتیں موجود ہیں، ان سے نکاح کر لو اور اپنا مقصد پورا کرو (ابن کثیر) *** یعنی میرے گھر آئے مہمانوں کے ساتھ زیادتی اور زبردستی کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک آدمی بھی ایسا سمجھدار نہیں ہے، جو میزبانی کے تقاضوں اور اس کی نزاکت کو سمجھ سکے، اور تمہیں اپنے برے ارادوں سے روک سکے، حضرت لوط (عليہ السلام) نے یہ ساری باتیں اس بنیاد پر کہیں کہ وہ ان فرشتوں کو فی الواقع نو وارد مسافر اور مہمان ہی سمجھتے رہے۔ اس لئے بجا طور پر ان کی مخالفت کو اپنی عزت ووقار کے لئے ضروری سمجھتے رہے۔ اگر ان کو پتہ چل جاتا یا وہ عالم الغیب ہوتے تو ظاہر بات ہے کہ انہیں یہ پریشانی ہرگز لاحق نہ ہوتی، جو انہیں ہوئی اور جس کا نقشہ یہاں قرآن مجید نے کھینچا ہے۔