قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
(اے پیغمبر) ہم دیکھ رہے ہیں کہ (حکم الٰہی کے شوق و طلب میں) تمہارا چہرہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ اتھ جاتا ہے تو یقین کرو ہم عنقریب تمہارا رخ ایک ایسے ہی قبلہ کی طرف پھر دینے والے ہیں جس سے تم خوشنود ہوجاؤگے (اور اب کہ اس معاملہ کے ظہور کا وقت آگیا ہے) تو چاہیے کہ تم اپنا رخ مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف پھیر لو اور جہاں کہیں بھی تم اور تمہارے ساتھی ہوں، ضروری ہے کہ (نماز میں) رخ اسی طرف کو پھر جایا کرے۔ اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے (یعنی یہود اور نصآری) وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ معاملہ ان کے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے (کیونکہ ان کے مقدس نوشتوں میں اس کی پیشین گوئی موجود ہے اور جیسے کچھ ان کے اعمال ہیں اللہ ان سے غافل نہیں ہے
*اہل کتاب کے مختلف صحیفوں میں خانہ کعبہ کے قبلۂ آخر الانبیاء ہونے کے واضح اشارات موجود ہیں۔ اس لئے اس کا برحق ہونا انہیں یقینی طور پر معلوم تھا، مگر ان کا نسلی غرور وحسد قبول حق میں رکاوٹ بن گیا۔