وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
اور (کہا گیا کہ) ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم کے مطابق ایک کشتی بنانا شروع کردے اور ان ظالموں کے بارے میں اب ہم سے کچھ عرص معروض نہ کر، یقینا یہ لوگ غرق ہوجانے والے ہیں۔
* ”یعنی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ”ہماری دیکھ بھال میں“ اس آیت میں اللہ رب العزت کے لئے صفت 'عین' کا اثبات ہے جس پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور 'ہماری وحی سے' کا مطلب، اس کے طول و عرض وغیرہ کی جو کیفیات ہم نے بتلائی ہیں، اس طرح اسے بنا۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے کشتی کے طول و عرض، اس کی منزلوں اور کس قسم کی لکڑی اور دیگر سامان اس میں استعمال کیا گیا، اس کی تفصیل بیان کی ہے، جو ظاہر بات ہے کہ کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہے۔ اس کی پوری تفصیل کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ ** بعض نے اس سے مراد حضرت نوح (عليہ السلام) کے بیٹے اور اہلیہ کو لیا ہے جو مومن نہیں تھے اور غرق ہونے والوں میں سے تھے۔ بعض نے اس سے غرق ہونے والی پوری قوم مراد لی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی مہلت طلب مت کرنا کیونکہ اب ان کے ہلاک ہونے کا وقت آ گیا ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان کی ہلاکت کے لئے جلدی نہ کریں، وقت مقرر میں یہ سب غرق ہو جائیں گے۔ (فتح القدیر)۔