وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور (مسلمانو ! جس طرح یہ بات ہوئی کہ بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ قبلہ قرار پایا) اسی طرح یہ بات بھی ہوئی کہ ہم نے تمہیں نیک ترین امت ہونے کا درجہ عطا فرمایا تاکہ تم انسانوں کے لیے (سچائی کی) گواہی دینے والے ہو اور تمہارے لیے اللہ کا رسول گواہی دینے والا ہو۔ اور اگر ہم نے اتنے دنوں تک تمہیں اسی قبلہ پر رہنے دیا جس کی طرف تم رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے تو یہ اس لیے تھا، تاکہ (وقت پر) معلوم ہوجائے کون لوگ اللہ کے رسول کی پیروی میں سچے ہیں اور کون لوگ (دل کے کچے ہیں جو آزمائش میں پڑ کر) الٹے پاؤں پھر جانے والے ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ ہدایت یافتہ لوگوں کے سوا اور سب کے لیے اس معاملہ میں بڑی ہی سخت آزمائش تھی۔ بہرحال (جو لوگ آزمائش میں پورے اترے ہیں وہ یقین کریں ان کی استقامت کے ثمرات بہت جلد انہیں حاصل ہوں گے) ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا تمہارا ایمان رائگاں جانے دے۔ وہ تو انسان کے لیے سرتاسر شفقت و رحمت رکھنے والا ہے
* ﴿وَسَطٌ﴾ کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں، لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں اسی معنی میں اس کا استعمال ہوا ہے،یعنی جس طرح تمہیں سب سے بہتر قبلہ عطاکیاگیا ہے، اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا ہے اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے ﴿لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (سورۂ الحج۔78) ”رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔“ اس کی وضاحت بعض احادیث میں اس طرح آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا؟ وہ اثبات میں جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ کہیں گے ہاں محمد (ﷺ) اور ان کی امت، چنانچہ یہ امت گواہی دے گی۔ اس لئے اس کا ترجمہ عادل بھی کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ایک معنی وسط کے اعتدال کے بھی کئے گئے ہیں۔ یعنی امت معتدل یعنی افراط وتفریط سے پاک۔ یہ اسلام کی تعلیمات کے اعتبار سے ہے کہ اس میں اعتدال ہے، افراط وتفریط نہیں۔ ** یہ تحویل قبلہ کی ایک غرض بیان کی گئی ہے، مومنین صادقین تو رسول اللہ (ﷺ) کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہا کرتے تھے، اس لئے ان کے تو ادھر سے ادھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو عین نماز کی حالت میں جب کہ وہ رکوع میں تھے یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع ہی میں اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ یہ مسجد قبلتین (یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قبا میں بھی ہوا۔ ﴿لِنَعْلَمَ﴾ ”تاکہ ہم جان لیں“ اللہ کو تو پہلے بھی علم تھا، اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کردیں تاکہ لوگوں کے سامنےبھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہوجائیں (فتح القدیر) *** بعض صحابہ (رضی الله عنہم) کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ (رضی الله عنہم) بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہوچکے تھے، یا ہم جتنے عرصے اس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں یہ ضائع ہوگئیں،یا شاید ان کا ثواب نہیں ملے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نمازیں ضائع نہیں ہوں گی، تمہیں پورا ثواب ملے گا۔ یہاں نماز کو ایمان سے تعبیر کرکے یہ بھی واضح کردیا کہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان تب ہی معتبر ہے جب نماز اور دیگر احکام الٰہی کی پابندی ہوگی۔