فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ
اس پر قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی کہا ہم تو تم میں اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھتے کہ ہماری ہی طرح کے ایک اادمی ہو اور جو لوگ تمہارے پیچھے چلے ہیں ان میں ان ان لوگوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ہم میں کمینے ہیں اور بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے ہو لیے ہیں۔ ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے۔ بلکہ سمجھتے ہیں تم جھوٹے ہو۔
* یہ وہی شبہ ہے، جس کی پہلے کئی جگہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کافروں کے نزدیک بشریت کے ساتھ نبوت و رسالت کا اجتماع بڑا عجیب تھا، جس طرح آج کے اہل بدعت کو بھی عجیب لگتا ہے اور وہ بشریت رسول (ﷺ) کا انکار کرتے ہیں۔ ** حق کی تاریخ میں یہ بات بھی ہر دور میں سامنے آتی رہی ہے کہ ابتداء میں اس کو اپنانے والے ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں معاشرے میں بےنوا کم تر سمجھا جاتا تھا اور صاحب حیثیت اور خوش حال طبقہ اس سے محروم رہتا۔ حتی کہ پیغمبروں کے پیروکاروں کی علامت بن گئی۔ چنانچہ شاہ روم ہرقل نے حضرت ابو سفیان (رضی الله عنہ) سے نبی (ﷺ) کی بابت پوچھا تو اس میں ان سے ایک بات یہ بھی پوچھی کہ ”اس کے پیروکار معاشرے کے معزز سمجھے جانے والے لوگ ہیں یا کمزور لوگ“ حضرت ابو سفیان (رضی الله عنہ) نے جواب میں کہا ”کمزور لوگ“ جس پر ہرقل نے کہا ”رسولوں کے پیروکار یہی لوگ ہوتے ہیں“۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 7) قرآن کریم میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خوش حال طبقہ ہی سب سے پہلے پیغمبروں کی تکذیب کرتا رہا ہے۔ (سورہ زخرف: 23) اور یہ اہل ایمان کی دنیاوی حیثیت تھی اور جس کے اعتبار سے اہل کفر انہیں حقیر اور کم تر سمجھتے تھے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ حق کے پیروکار معزز اور اشراف ہیں چاہے وہ مال ودولت کے اعتبار سے فروتر ہی ہوں اور حق کا انکار کرنے والے حقیر اور بےحیثیت ہیں چاہے وہ دنیوی اعتبار سے مال دار ہی ہوں۔ *** اہل ایمان چونکہ، اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلے میں اپنی عقل ودانش اور رائے کا استعمال نہیں کرتے، اس لئے اہل باطل یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بےسوچ سمجھ والے ہیں کہ اللہ کا رسول انہیں جس طرف موڑ دیتا ہے، یہ مڑ جاتے ہیں جس چیز سے روک دیتا ہے، رک جاتے ہیں۔ یہ بھی اہل ایمان کی ایک بڑی بلکہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ لیکن اہل کفر و باطل کے نزدیک یہ خوبی بھی ”عیب“ ہے۔