وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ
اور اگر اسے دکھ پہنچا ہو اور اس کے بعد راحت کا مزہ چکھا دیں تو پھر (یک قلم غافل ہوجاتا ہے اور) کہتا ہے اب تو برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں (اب کیا غم ہے) حقیقت یہ ہے کہ انسان (ذرا سی بات میں) خوش ہوجانے والا اور ڈینگیں مارنے والا ہے۔
* یعنی سمجھتا ہے کہ سختیوں کا دور گزر گیا، اب اسے کوئی تکلیف نہیں آئے گی۔ أُمَّةٌ کے مختلف مفہوم: آیت نمبر 8میں أُمَّةٌ کا لفظ آیا ہے۔ یہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ یہ ام سے مشتق ہے، جس کے معنی قصد کے ہیں۔ یہاں اس کے معنی اس وقت اور مدت کے ہیں جو نزول عذاب کے لیے مقصود ہے۔ (فتح القدیر) سورہ یوسف کی آیت 45وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ» میں یہی مفہوم ہے اس کے علاوہ جن معنوں میں اس کا استعمال ہوا ہے، ان میں ایک امام وپیشوا ہے۔ جیسے ﴿إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً﴾ ( النحل:120) ملت اور دین ہے، جیسے ﴿إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ﴾ ( الزخرف:23) جماعت اور طائفہ ہے۔ جیسے ﴿وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ﴾ ( القصص:23)، ﴿وَمِنْ قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ﴾ (الأعراف:159) وغیرھا۔ وہ مخصوص گروہ یا قوم ہے جس کی طرف کوئی رسول مبعوث ہو۔﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ﴾ (يونس:47) اس کو امت دعوت بھی کہتے ہیں اور اسی طرح پیغمبر پر ایمان لانے والوں کو بھی امت یا امت اتباع یا امت اجابت کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر) ** یعنی جو کچھ اس کے پاس ہے، اس پر اتراتا اور دوسروں پر فخر و غرور کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم ان صفات مذمومہ سے اہل ایمان اور صاحب اعمال صالحہ مستشنٰی ہیں جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے۔